پاکستان بوائے اسکاوٹس

*سکاوٹس جیسا کوئی بھی نہیں *
*پاکستانی پرچم اور اسکاوٹس*
م راقم تحریر: *علی زین*

  1. یوں تو دنیا بھر کے تمام ادیان و مذاہب کے ساتھ ساتھ تمام ریاستوں اور ممالک میں سکاوٹس کے کارناموں کی ایک طویل اور نا ختم ہونے والی داستانیں موجود ہیں مگر ان داستانوں میں سے چند ایک خاص کو نمایاں حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے اس کی وجہ ان داستانوں کی انفرادیت یا ان کار ہائے نمایاں انجام دینے والے کرداروں کی خاصیت ہوتی ہے ایسی ہی ایک عظیم داستان تاریخ کے قرطاس پہ سنہرے حروف سے  پاکستان بوائے سکاوٹس نے بھی تحریر کی ہے کہ جس کا ذکر ماہ آزادی میں کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں ہوا کچھ یوں کہ

سن 1947 میں یہ تو پکا ہو ہی چکا تھا  کہ برصغیر کی تقسیم کی جائے گی لیکن اس کا ٹائم فریم طے نہیں تھا۔ تو اسی دوران فرانس میں عالمی بوائے سکاؤٹس کا کنونشن آ گیا جسے *جمبوری* کہا جاتا ہے۔ یہ ایک عالمی کنونشن ہوتا ہے جو ہر سال کسی ایک ملک میں بین الاقوامی سکاوٹس ملکر کرواتے ہیں اور اس میں تمام دنیا کے سکاوٹس کے نمائندگان اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سن 47 میں انڈیا کی جانب سے جو بوائے سکاؤٹس کا دستہ بھیجا گیا اس میں مسلمان سکاؤٹس بھی شامل تھے جن میں سے ایک نوجوان کا نام *سرفراز رفیقی* تھا جو بعد میں پاکستان ائیر فورس کا ایک لیجنڈ پائلٹ بن کر ابھرا اور پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہلالِ جراءت حاصل کرتے ہوئے 65 کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سب لوگ انڈیا کے سکاؤٹس کے دستے میں اکٹھے بحری جہاز پر فرانس کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی راستے میں ہی تھے کہ انہیں پتہ چلا کہ چودہ اگست کو برصغیر کی تقسیم ہونا طے پائی ہے۔ یہ بات سن کر سب مسلمان سکاؤٹس اکٹھے ہوئے اور آپس میں فیصلہ کیا کہ چاہے جو بھی ہو چودہ اگست کو ہمارا الگ ملک بن جائے گا تو اس دن ہم کسی بھی صورت انڈیا کے جھنڈے کو سلامی نہیں دیں گے بلکہ اس دن ہم اپنے الگ ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے سبز ہلالی پرچم کے نیچے الگ کھڑے ہوں گے۔
یہ بات جیسے ہی سکاؤٹس دستے کے لیڈر کو پتہ چلی جو کہ ایک متعصب ہندو تھا اس نے تمام مسلمان سکاؤٹس کا کھانا بند کروا دیا کیونکہ خرچ کے لیے تمام رقم اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس تمام سفر کے دوران مسلمان سکاؤٹس پورے دن میں مشکل سے ایک وقت کا کھانا کھا کر گزارا کرتے رہے لیکن ان میں سے ایک بھی پاکستان کی نمائندگی کرنے کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹا۔
اگلا مرحلہ جھنڈا حاصل کرنے کا تھا۔ پاکستان ابھی بنا بھی نہیں تھا تو اس کا جھنڈا کہاں سے ملتا تو سب مسلمان سکاؤٹس نے جھنڈا خود سینا شروع کیا۔ لیکن ایک مشکل اس وقت پیدا ہو گئی جب یہ پتہ چلا کہ سبز رنگ کا کوئی بھی سوٹ کسی بھی مسلمان سکاؤٹ کے پاس موجود نہیں۔ یہ بات جہاز پر ان کے قریبی کیبن میں رہائش پذیر ایک نوجوان ترک لڑکی نے سن لی اور وہ کسی کے کہے بنا اپنے کیبن میں گئی اور اپنے بالکل نئے سبز سوٹ کا دوپٹہ لا کر ان سکاؤٹس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
اس طرح پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تیار کیا گیا۔
اور ارادوں کے پکے مسلم سکاؤٹس نے چودہ اگست کے دن باقی انڈین سکاؤٹس سے الگ ہو کر اپنے علیحدہ آزاد ملک کی نمائندگی کی اور سبز پرچم کو سلامی دے کر پاکستان سے باہر پاکستان کی
نمائندگی کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔
یہ عالمی سکاوٹس کنونشن اس وقت فرانس میں طے پایا تھا اس لئے فرانس وہ پہلا ملک بن گیا کہ جہاں سب سے پہلے پاکستان سے باہر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور اس عظیم پرچم کو سر بلند رکھنا تو پاکستان بوائے سکاوٹس کے شعار میں ہے ہی مگر اس کار ہائے نمایاں کی بدولت اس سر بلند پرچم کو سب سے پہلے بیرون ملک لہرانےاور اس کی نمائندگی کرنے کا اعزاز بھی پاکستان بوائے سکاوٹس ہی کی درخشندہ تاریخ کا روشن باب بن گئی۔
*بشکریہ دی نیوز*
*Scouts are priceless*
Alisc1214@gmail.com
00923024409604

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Pakistan failed Kashmiris or UN?