Posts

قربانی ہمیشہ وارث دیا کرتے ہیں

 *قربانی ہمیشہ وارث دیا کرتے ہیں* روایات میں ہے کہ مولا امیر المومنین علی ع کے پاس ایک بچے کو لایا گیا جس پہ دو خواتین والدہ ہونے کی دعویدار تھیں جب کسی صورت فیصلہ نا ہو پایا تو مولا نے حکم دیا بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں بانٹ دیا جائے، اس حکم کے جاری ہوتے ہی ایک خاتون بین کرتے ہوئے اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئی اور التماس کی کہ بچہ دوسری عورت کے حوالے کر دیا جائے.. جب وجہ پوچھی گئی تو وہ خاتون گویا ہوئی.. میرے لیے بلاشبہ یہ اہم ہے کہ بچہ میرے پاس رہے مگر اس سے بھی اہم اس کی زندگی ہے.. (چونکہ وہ حقیقی والدہ تھیں)  یہ تاریخی واقعہ آج مجھے بے حد یاد آیا اور ملت کے درد دل رکھنے والے ہر باشعور فرد کو اس واقعہ کی وساطت سے میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اپنی ذات و خواہشات کی قربانی ہمیشہ وہ دیا کرتے ہیں کہ جو اپنے اصل و مقصد کو اہمیت دیتے ہیں یوم القدس کے مرکزی جلوس ہوں، افکارِ شہید قائد کی بات ہو، چہلم شہید سردار قاسم سلیمانی ہو یا اسلام آباد میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ ہو ہمیں ہر جگہ بیان کردہ دو کردار نظر آتے ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم چشم بصیرت رکھتے ہوئے بھی خاموش ہو جائیں. میں شا

میرے شہر میں اترا برسات کا موسم

میرے شہر میں اترا برسات کا موسم ✍🏻 علی زین  برسات کا یہ خوشنما و پر رنگ موسم اور اس موسم کے مسرور کن لمحات!!! سورج کا بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا! کبھی قوسِ قزح کے رنگوں کا افق پہ بکھرنا! کبھی نرم نرم بوندوں کا مٹی کو مہکانا تو کبھی موسلادھار بارش کا رات بھر برسنا۔ بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا۔ بارش کا موسم بھی کتنا حسین اور خوش نما ہوتا ہے۔ جب ہر چیز نکھری نکھری محسوس ہوتی ہے، ہر پتا، ہر بوٹا ہر گل خوشی اور سرمستی سے لہراتا ہے۔ مٹی کی سوندھی خوشبو حواسوں پر چھا جاتی ہے۔یہ وہ موسم ہے جب دل بلاوجہ خوشی سے جھومنے لگتا ہے۔ جب ٹپ ٹپ گرتی ہوئی بوندوں کی آواز موسیقی سے بھلی لگتی ہے تب دل چاہتا ہے کہ تمام فکروں سے آزاد ہو کر کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر ہر بوند کو اپنے اندر سمو لیں۔ سنا ہے موسم کچھ نہیں ہوتا اصل اندرونی کیفیت ہوتی ہے جو ہم پہ مسلّط ہو کے خوش و خرم یا افسردہ حال بنا دیتی ہے لیکن مزکورہ بات کے قائل طبقات بھی ایک موسم کے سحر میں مبتلا ہوئے بنا نہیں رہ پاتے اور وہ موسم،  برسات کا موسم ہے جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہو یا دسمبر جنوری کا سخت جاڑا ہر مو

محسنہ رسالت

اس کائنات کی بہت سی چیزوں کو دوسری چیزوں پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً جمعہ کے دن کو باقی دنوں پر ‘ماہ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور لیلة القدر کو رمضان کی باقی راتوں پر۔اسی طرح اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے ہیں جن کو تمام بنی نوعِ انسان پر مختلف خصوصیات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً انبیائے کرام کو غیر انبیاء پر اورپھر انبیائے کرام میں سے بھی نبی کریم صلی الله علیہ والہ وسلم کو اسی طرح اصحاب باوقار میں سے اہل بیت ع کو  باقی سب پر فوقیت حاصل ہے۔اسی طرح وہ عورتیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں رہیں ان کو بھی بنی نوعِ انسان کے طبقہ نسواں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ ان ازواج مطہرات میں *خاتونِ جنت سیدہ فاطمہؑ* کی جنت سیدہ خدیجہ الکُبریٰ کو باقی ازواج النبیؐ سے برتری حاصل ہے،  نبی مکرمؐ کی پہلی زوجہ اور اُمت کی پہلی ماں کا شرف صرف آپؑ کو ہی حاصل ہے، سیدہ خدیجہؑ کی حیات مبارکہ میں آپؐ نے کسی اور خاتون سے نکاح نہیں کیا، عرب جیسے غلیظ ترین معاشرے میں *"طاہرہ"* کا لقب صرف جنابِ خدیجہؑ کے حصے میں آیا،  پنجابی میں ایک مثال ہے " جینداں کھاوئیے اُہدے گیت گاوئیے&q

ذرا نہیں پورا سوچئے

*ذرا نہیں پورا سوچئے* *از قلم: علی زین* بشکریہ سر علی رضوان ہمت تمہارا مذہب کیا ہے ؟؟ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟؟ یہ ایک ایسا سوال ہے30جسے ہم میں سے تقریبا ہر شخص کو اپنی فیلڈ میں بلا تفریق رنگ و نسل ، علاقہ و زبان اکثر و بیشتر پیش آتا رہتا ہے  مگر اس سوال کے حوالے سے میرا تجربہ بالکل مختلف تھا کیونکہ مجھے یہ سوال  کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی والد گرامی کی طرف سے کیا گیا۔ ان کے اس سوال پہ پہلے تو میں ششدر رہ گیا مگر جب جواب دیا کہ وہی جس پہ آپ ہیں تو ان کے سوالات کی بوچھاڑ سے اندازہ ہوا کہ میں تو جہاں بھی ہوں مکمل گمراہ ہو سکتا ہوں کہ بلا دلیل ہوں  ، والد صاحب نے ایک مقررہ وقت دیا اور گھر میں موجود مختلف مکاتب فکر کی 300 سے زائد کتب کی طرف اشارہ کر کے کہا "بیٹا یہ کتب ہیں ان کے علاوہ جہاں کہیں سے بھی مدد لے سکو لو مگر مجھے مدلل جواب چاہیئے کہ تمہارا مذہب کیا ہے دلیل کے ساتھ الحاد بھی ثابت کرو گے تو مجھے قبول ہے وگرنہ کچھ بھی کہو میرے لئے قابل قبول نہیں"  وقتی طور پہ ناگوار گزرنے والی یہ باتیں آج مجھے زندگی کا خوبصورت ترین تحفہ لگتی ہیں جو بابا جان نے مجھے دیا

S.Nasrullah

*S. Nasrallah Says Suspicious Sides Exploited Popular Protests, Urges Supporters to Leave Streets* October 25, 2019 Hezbollah Secretary General Sayyed Hasan Nasrallah urged the resistance supporters on Friday to leave the streets, noting that a dangerous scheme aimed at targeting Lebanon on the political level has being prepared. In a televised address to the Lebanese people on the latest local developments, Sayyed Nasrallah said that Hezbollah at first hailed the popular protests but noted that such rallies have turned out to be politically exploited by foreign powers and suspicious sides inside Lebanon. His eminence listed the achievements of the nation-wide protests which started on October 17, noting that its major achievements were the package or reforms and 2020 budget which was with no taxes. As he stressed that Hezbollah doesn’t accept toppling the presidency, Sayyed Nasrallah noted that the resistance party also doesn’t back the government resignation. In this conte

ترکی کا شام پر حملہ

ترکی کا شام پر حملہ ہم نے دنیا کے امن کے لیے اپنے جوان مروائے ہیں اور اب دنیا نے ہمیں ایک خونخوار دشمن کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ دنیا نے ہمیں اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔ یہ کہنا تھا کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی PYD کے رہنما صالح مسلم کی زوجہ عائشہ آفندی کا۔ عائشہ آفندی کا مزید کہنا تھا کہ اردگان کا ہدف سیف زون بنانا ہے نہ شام کے مہاجرین کی آبادکاری بلکہ اردگان کا ہدف کُردوں کی نسل کشی ہے۔ عائشہ آفندی کے بقول اردگان شام کے کُردوں کا قتل عام کرنا چاہتا ہے صرف اس بہانے پر کہ علیحدگی پسند عسکری کُرد جماعت PKK ترکی کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے جبکہ PKK کا شام کے کُرد علاقوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ عائشہ آفندی کے بقول اردگان کے سر پر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا بھوت سوار ہے جس کی خاطر وہ ترکی کی سرحدوں کی توسیع چاہتا اور اس راستے میں کُرد قوم ایک بڑی رکاوٹ ہے لہذا وہ کُردوں کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ عائشہ آفندی نے ترک جارحیت کا مقابلہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے کہا تسلیم ہونا کُردوں کی سرشت میں شامل نہیں ہے ہم آخری سانس تک ترکوں سے لڑیں گے۔ کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے عسکری ونگ YPJ کی خواتین

ترکی کا شامی کُردوں پر حملہ عبرت ہے

ترکی کا شامی کُردوں پر حملہ عبرت ہے جنگیں جیتنے کے لیے لڑی اور عبرت کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔ ہر دوسری جنگ کی طرح شام کی 8 سالہ جنگ میں بھی فتح و شکست کے علاوہ بہت ساری عبرتیں ہیں۔ جنگوں سے حاصل ہونے والی عبرتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ شام جنگ کی ایک عبرت جو شام کی تازہ صورتحال میں مزید تازہ ہوگئی ہے وہ شام جنگ میں کردوں کے کردار کے حوالے سے ہے۔ شامی کردوں نے اس وقت علیحدگی کا نعرہ لگایا جب شام کی فوج اور حکومت شامی عوام کو داعش کے درندوں سے بچانے میں مصروف تھی۔ کردوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور شام کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ شامی کردوں کا یہ اقدام شام کی مرکزی حکومت کی پیٹھ میں خنجر کے مترادف تھا۔ ایسے میں کردوں نے ہر اس علاقائی اور بین الاقوامی طاقت کے تلوے چاٹے جن سے انہیں اپنی غیر قانونی حکومت کی مضبوطی میں مدد کی ذرا بھی امید تھی۔ شام میں بشار الاسد حکومت کی مخالف طاقتوں خصوصاً امریکہ اور اسرائیل نے بھی اپنے اہداف کے پیش نظر کردوں کو خوب استعمال کیا، کردوں کو سبز باغ دکھائے گئے، کردوں کی حفاظت کی ضمانتیں دی گئیں۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد ترکی نے عفرین