ترکی کا شام پر حملہ


ترکی کا شام پر حملہ

ہم نے دنیا کے امن کے لیے اپنے جوان مروائے ہیں اور اب دنیا نے ہمیں ایک خونخوار دشمن کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ دنیا نے ہمیں اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔ یہ کہنا تھا کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی PYD کے رہنما صالح مسلم کی زوجہ عائشہ آفندی کا۔ عائشہ آفندی کا مزید کہنا تھا کہ اردگان کا ہدف سیف زون بنانا ہے نہ شام کے مہاجرین کی آبادکاری بلکہ اردگان کا ہدف کُردوں کی نسل کشی ہے۔ عائشہ آفندی کے بقول اردگان شام کے کُردوں کا قتل عام کرنا چاہتا ہے صرف اس بہانے پر کہ علیحدگی پسند عسکری کُرد جماعت PKK ترکی کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے جبکہ PKK کا شام کے کُرد علاقوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ عائشہ آفندی کے بقول اردگان کے سر پر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا بھوت سوار ہے جس کی خاطر وہ ترکی کی سرحدوں کی توسیع چاہتا اور اس راستے میں کُرد قوم ایک بڑی رکاوٹ ہے لہذا وہ کُردوں کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ عائشہ آفندی نے ترک جارحیت کا مقابلہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے کہا تسلیم ہونا کُردوں کی سرشت میں شامل نہیں ہے ہم آخری سانس تک ترکوں سے لڑیں گے۔

کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے عسکری ونگ YPJ کی خواتین برگیڈ کی کمانڈر نسرین عبداللہ کے بقول ترکی شام کے شمال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ نسرین عبداللہ کے بقول دنیا ترکی کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکے ورنہ یاد رکھیں ترکی تمام ہمسایوں کو ہڑپ کر جائے گا۔ نسرین عبداللہ کے بقول ترکی نے کُردوں پر حملہ امریکہ اور مغرب کے گرین سگنل کے بعد کیا ہے۔ عائشہ آفندی اور نسرین عبداللہ کے بیانات کی تفصیلات میں جائے بغیر ان بیانات اور حالات و واقعات سے ایک بات تو واضح ہے کہ امریکہ قابل اعتماد اتحادی نہیں ہے۔ امریکہ دوستوں کو بیچ مشکل کے چھوڑ جاتا ہے۔ یہ بات کُردوں سمیت ہر اس ملک کے لیے عبرت ہے جو امریکہ کے اتحادی یا جن کا امریکہ حامی ہے۔

ترکی نے دو دن قبل شمالی شام کے کرد نشین علاقوں میں فوجیں اتار دی ہیں۔ ترک بری فوجوں کو ترک فضائیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ترکی نے شام کے کُرد نشین علاقوں پر اس وقت حملہ کیا ہے جب کُردوں کے دائمی اتحادی اور حامی امریکہ نے ان علاقوں سے اپنی افواج کو نکال لیا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی فوجوں کا انخلاء ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی نے شام پر حملہ امریکہ کے گرین سگنل سے کیا ہے۔

امریکی صدر ٹرامپ جو اپنی پالیسی، حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا اعلان ٹوئٹر پر ہی کرتا ہے اس نے بھی ایک ٹوئٹ میں کُردوں کی سپورٹ کو سابقہ امریکی حکومتوں کی غلطی قرار دیا اور کُردوں پر وہی الزام لگایا ہے جو اس نے کچھ عرصہ قبل پاکستانی فورسز پر لگایا تھا کہ ہم نے انہیں پیسے دیے، اسلحہ دیا، ٹریننگ دی لیکن بدلے میں انہوں نے ہمیں کیا دیا ہے؟۔ ٹرامپ کے بقول ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی اور اپنا کام کر دیا ہے اب ہماری وہاں کوئی ذمہ داری نہیں ہے لہذا ہمیں پاس کرد علاقوں سمیت تمام شام سے فوجیں واپس بلا لینی چاہیے۔

امریکی صدر کے بقول کُرد اور ترک صدیوں سے آپس میں لڑتے آ رہے ہیں ہم ان کی اس لڑائی میں غیر جانبدار رہیں گے۔ دوسری جانب ٹرامپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر میں اپنی بے مثال فہم و فراست کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچا کہ ترکی ریڈ لائن کراس کررہا ہے تو میں ترکوں کی معیشت تباہ کر دوں گا جیسا کہ میں نے پہلے کیا تھا۔ ماہرین ٹرامپ کے بیانات، امریکی فوجوں کی کُرد علاقوں سے واپسی اور اسی دوران ترک فوجوں کے حملے کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ترکی نے امریکہ کے گرین سگنل کے بعد شام پر حملہ کیا ہے۔

عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگار باری عطوان کے بقول ترک فوجوں کے شام کے کرد نشین علاقوں پر حملے کے بارے دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حالیہ سہ فریقی انقرہ سمٹ میں روس، ترکی اور ایران کے درمیان یہ طے ہوا ہو کہ ترکی ملکی امن و سلامتی کو دلیل بنا کر شام کے کُرد علاقوں پر حملہ کرے جس سے مستقبل میں شام کے اندر علیحدہ کرد ریاست کی تشکیل کا راستہ روکا جا سکے۔ باری عطوان کے مطابق دوسرا احتمال یہ ہے کہ امریکہ نے اردگان حکومت کو اکسا کر ایک غیر ضروری جنگ میں پھنسا دیا ہو جہاں سے سوائے معاشی نقصان، عالمی رائے عامہ میں حیثیت کی خرابی، سیاسی شکست اور پشیمانی کے ترکی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ امریکہ کا ترکی سے بدلہ ہوگا ان اختلافات کا جو سرد جنگ کے بعد سے امریکہ اور ترکی کے درمیان چلے آرہے ہیں۔ باری عطوان کے بقول دوسرا احتمال زیادہ قوی دکھائی دیتا ہے۔

مارچ 2011 سے جاری شام جنگ میں اب تک 3 لاکھ کے قریب شامی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، شام کی آدھی آبادی ملک سے ہجرت کرگئی ہے اور 80 فیصد بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے جس کی بنیادی وجہ شام کے داخلی سیاسی بحران میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت ہے۔

ترکی نے ایک بار پھر شام کے بحران کے حوالے سے فوجی مداخلت کا راستہ اختیار کیا ہے جس سے بے گناہ اور نہتے شہریوں کی ہلاکتوں، ہجرت اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ترکی علاقائی امن و سلامتی اور سیاسی استحکام کو کس قیمت پر کب تک خطرے میں ڈالتا رہے گا یہ بات آنے والے وقت میں مزید واضح ہو جائے گی لیکن ایک چیز ابھی سے واضح ہے کہ جنگ زدہ تباہ حال شام کے ٹکڑے کر کے اپنی انا کی تسکین، توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور خطے میں اپنی برتری ثابت کرنے کی دوڑ میں ترکی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔

ابنِ حسن

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان بوائے اسکاوٹس

Pakistan failed Kashmiris or UN?