میں ایک معلم ہوں



میں ایک معلم ہوں
وقاص ہادی ہ
"بسم اللہ الرحمن الرحیم" 
دنیا میں اس وقت اوسط ایک انسان کی عمر 50 سے 60 برس سے زائد نہیں ہے اس مختصر سی مدت حیات میں ہر انسان لاکھوں نہ سہی مگر ہزاروں انسانوں سے ضرور ملتا ہے ان ہزاروں میں سے شاید سینکڑوں بھی اس کو یاد نہیں رہتے ہونگے۔
ہاں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوا کرتے ہیں جو ملنے کے بعد وجود میں نقش ہو جایا کرتے ہیں کہ پھر تاحیات ان کی مہک کو خود سے جدا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہم کہیں بھی کلیاں بکھیریں ان کے لمس کا احساس اور مہک جاوداں اس محفل میں محض رقص کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا پتہ دیتی ہے.
مگر!!! ایسی شخصیات معاشرےمیں کمیاب ہوا کرتی ہیں اسی بزم عدن کے ایک گلستان کا ذکر کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ جس کو راہیان نور اپنی زباں میں استاد کہتے ہیں 
یہ جانتے ہوئے بھی کہ بزم بہاراں کے اس چمن کی بابت میں قلم کشائی کا فن نہیں رکھتا بلکہ اس ماہتاب ضوفشاں کی ضیاعوں کی وسعت کو درک کرنے کی ہر ممکن سعی بھی ایک شمع برابر روشنائی تک نا دے سکے گی مگر اس سب کے باوجود اس عظیم شخصیت کےلیے دل و روح یک زباں ہو کے پورے وجود کو قلم کی نوک میں سمو کر کھلکھلاتے حروف کے موتیوں کی مالا پرو کے کچھ لکھنے کہ جسارت کر رہا ہوں کہ شاید اس تگ و دو میں اپنے آثار ہی چھوڑ جاؤں۔

رسول خدا نے ارشاد فرمایا:
"بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے."
ہمارے نزدیک ایک استاد کی تعریف کیا ہے.
ہم میں سے اکثر کا جواب یہ ہوگا استاد وہ ہوتا ہے جو ہمیں پڑھاتا ہے, سکھاتا ہے.آپ سب کا جواب ٹھیک ہے.لیکن دور حاضر میں استاد کی تعریف کچھ یوں ہے.
اگر استاد ہمیں موٹیویٹ نہیں کرتا ہماری حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو وہ استاد نہیں ہے پڑھا دینا, بتا دینا, سمجھادینا ہی کافی نہیں ہے طالب علم کے اندرایک چنگاری پیدا کرنا ایک پاور پیدا کرنا جذبہ پیدا کرنا کہ کر سکتے ہیں۔
ایک اچھے استاد میں ان درج ذیل صفات کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کتاب پڑھنےوالا:
رھبر معظم سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:
عظیم لوگوں کی صفت ہے کہ دو منٹ بغیر ہوا ، دو ہفتے بغیر پانی کے اور زندگی کے کئی برس بغیر سرمائے کے گزار سکتے ہیں مگر ایک لمحہ بھی کتاب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ 
کتاب کا مطالعہ اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔مطالعہ ءِ کتاب اور تعلیم کو عام کرنا فقط قومی نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے۔رھبر معظم سید علی خامنہ ای کی کتاب "اہمیت مطالعہ " سے اقتباسات 
عظیم لوگوں کی صفت ہے کہ دو منٹ بغیر ہوا ، دو ہفتے بغیر پانی کے اور زندگی کے کئی برس بغیر سرمائے کے گزار سکتے ہیں مگر ایک لمحہ بھی کتاب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ 
گزشتہ صدیوں میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ کتب لکھی جاتی تھیں جبکہ اب ایسا نہیں ۔ اس کا سدباب ہونا چاہئے ۔ مطالعہ ءِ کتاب اور تعلیم کو عام کرنا فقط قومی نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے۔ کتاب کا مطالعہ اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کا بہترین وسیلہ ہے ۔ اور بچوں میں بھی یہ عادت ڈالیں ۔ جو کچھ بھی انسان نے سوچا ، سمجھا ، انجام دیا اور جو کچھ بھی انسان کے ساتھ پیش آیا ہے سب کتب میں لکھا ہے ۔کتاب ہی کے ذریعے آپ دنیا کے عظیم انسانوں سے ملاقات کرتے ہیں انسانی عمر کا ایک گھنٹہ بھی واپس نہٰں لایا جا سکتا مگر کتاب کے ذریعے آپ عظیم لوگوں کے تجربات سے استفاد ہ حاصل کر سکتے ہیں۔قرآن مجید سب سے اہم کتاب ہے جس کا روزانہ مطالعہ ضروری ہے ۔
وہ انسان خوش قسمت ہے جس کے پاس دو چیزیں ہوں ایک اچھی کتاب اور دوسرا ایسا دوست جو کتاب کو دوست رکھتا ہو۔
کتاب روح کی ماں ہے ( یعنی کتاب انسان کی ایسے پرورش کرتی ہے جیسے ماں اپنے بچے کی )کبھی کبھی انسان کتاب کے ذریعے سو سال کا راستہ ایک رات ہی میں طے کر لیتا ہے ۔ بہترین کتابیں پڑھیں اور بہترین کتابیں پڑھنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔مطالعہ کر کے عمل نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہل چلا کر بیج نا بویا ہو (پس نہ ہی فصل اگے گی نہ ہی فائدہ ہو گا )
اگر ہم مطالعے کے لئے وقت نکالنا چاہیں تو ہمارے پاس اضافی وقت بہت ہوتا ہے ۔ اگر تہذیب کے چند ستون فرض کئے جائیں تو اس کا ایک اصلی ستون کتاب ہے۔اسلامی فلسفہ کی کتب کو لوگوں میں عام کیا جانا چاہئے ۔ ایک قدیم کہاوت ہے کہ گھر تب تک گھر نہیں بنتا جبتک کہ کتب خانہ نہ بن جائے ۔وہ با تہذیب نہیں ہوتے جو کتاب سے انس نہیں رکھتے ۔

استاد وہ باعظمت ہستی ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے، ہدف انسانیت سے اسے آشنا کرتا ہے، انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے اسے آگاہ کرتا ہے، اسے معاشرے اور ملک کے لئے ایک مفید شہری بناتا ہے۔

جس معاشرے میں جتنا استاد کا احترام زیادہ ہوگا، اتنا ہی وہ معاشرہ علمی اور دوسرے میدانوں میں زیادہ ترقی کر پائے گا۔

معلم کا مقام (اسلامی نقطہ نظر سے)
ایک بزرگ سے پوچھا گیا,معلم کی قدر و منزلت اور اس کا مرتبہ باپ سے زیادہ کیوں ہے؟بزرگ نے جواب دیا باپ فنا پذیر زندگی گزارنا سکھاتا ہے جبکہ ایک معلم جاویداں زندگی جینا سکھاتا ہے۔معلم علم کا سرچشمہ ہوتا ہے اس لیے اسلام نے معاشرے میں معلم کو بہت حیثیت دی ہے اور اس کی بے حد عزت و احترام کی تاکید کی ہے۔
رسول خداﷺ نے استاد کو کی حقیقی باپ سے بھی زیادہ مرتبہ دیا ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا باعث ہوا دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کر دی اور تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان میں بہترین باپ تمارا معلم ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں جس سے کچھ سیکھتے اسے استاد کا درجہ دیتے اور اس کا ادب احترام کرتے تھے۔
🌹 *قول حضرت علی علیہ السلام:* ہے کہ جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا ہے میں اس کا غلام ہوں اسے اختیار ہے خواہ وہ مجھے فروخت کر دے یا آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بناکر رکھیے۔
عزت اور محبت:
معلم کو طلبإ سے جو عزت اور محبت ملے گی اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کر سکتی۔یہ زبردستی حاصل نہیں ہوتی بلکہ پیدا ہوتی ہے وہ اپنے ضمیر کی آواز پر آپ کا احترام کرتے ہیں۔کسی اور پروفیشن کے ذریعہ یہ تعلق پیدا نہیں کیا جاسکتا۔

ہمدردی اور محبت کا سرچشم:
معلم کی ذات ہمدردی اور محبت کا جیتا جاگتا سرچشمہ ہوتی ہے۔
مشہور زمانہ ماہر تعلیم پستالوزی کے متعلق مشہور ہے کہ "جب وہ کلاس روم میں داخل ہوتا تو چھوٹے بچوں کو پہلے سلام کرتا" کسی نے وجہ پوچھی, جواب دیا مجھے معلوم نہیں کہ ان بچوں میں کون بڑا فلسفی, کون بڑا آدمی یا معلم انسانیت بیٹھا ہوا ہے میں شاید اس وقت اس کی تعظیم کے لئے زندہ نہ رہوں گا۔

درد مند مخلص دوست:
اچھا معلم میں اپنے طالبعلموں کا دردمند مخلص دوست ہوتا ہے اور ان کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہو کر طلباء کا دل جیت سکتا ہے.جو معلم آپ کی ہر طرح سے بہتری کرنا چاہیے وہ آپ کا دوست معلم ہے۔

پڑھانے میں بھی استاد:
اچھا معلم پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے وہ اپنے مضمون میں نہ صرف کمال پیدا کرتا ہے بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم سے وہ اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔وہ اچھے معلم سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور پڑھانے میں بھی اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔

ذہین:
ایک معلم کو ذہین ہونا چاہیے۔

قابل فخر اور قابل قدر:
ایک معلم کو خدا شناسی خود شناسی فرض شناسی میں  قابل فخر و قابل قدر ہونا چاہیے۔

خوش مزاج:
ایک معلم کا خوش مزاج ہونا چاہیے۔معلم کو بچوں کے ساتھ گھل مل جانے والا ہونا چاہیے۔بعض معلم بچوں سے اکتا جانے والے اور نہ پسند کرنے والے ہوتے ہیں۔

وقت کا پابند:
وقت ایک عظیم نعمت ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں.ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے۔ جو وقت کی قدر سے آشنا ہوتا ہے۔جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وقت ان کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے۔

تجربے کار اور عمل والا:
ایک اچھے معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ماہر اور تجربہ کار ہو۔اپنے سبجیکٹ میں اسکی مکمل کمانڈو ہو گرفت ہو۔ طلبا ء اپنے استادکوبہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں یو ں استاد کی چال ڈھال ، عادات و اطوار اور اخلاق و کردار کا لاشعوری طور پراثر قبول کرنے لگتے ہیں ۔ اس لیے معلم کو اپنا کردار صاف اور شفاف رکھنا چاہیے۔

صفائی پسند:
*"صفائی نصف ایمان ہے"*
طالبعلم اپنے معلم کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔اپنے معلم کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ ایک معلم اچھا لباس پہن کر آے۔خشبو لگا کر آے۔ایک اچھی پرسنیلٹی ہونا چاہیے۔

ہدایت دینے والا:
معلم ہدایت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔تعلیم و تربیت میں ان کی رہنمائی کرے۔تعلیم و تربیت میں سب سے پہلے وہ اپنی تربیت کرے اور بعد میں اپنے طلبإ کی تربیت کرے۔اور لازم و ملزوم ہے کہ ایک معلم عمل کرنے والا ہونا چاہیے اگر اس کا خود کے علم پر کوئی عمل نہیں ہوگا تو اس کی باتیں موثر نہیں ہو گی۔
"اور علم عمل سے ہے اگر آپ عمل کرتے ہیں تو وہ لبیک کہتا ہے اگر آپ عمل نہیں کرتے تو وہ آپ سے رخصت ہو جاتا ہے"

بچوں سے پیار کرنے والا:
ﺍﺱ ٹیچر ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻠﻨﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﻮ , ﻣﻠﻨﺴﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ . ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ , ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﭨﯿﭽﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑتا۔ایک معلم کو بچوں سے پیار کرنے والا ہونا چاہئے اگر وہ بچوں سے پیار نہیں کرسکتا تو وہ بچوں کو کس طرح سے تعلیم و تربیت میں ان کی رہنمائی کرے گا۔

شفیق معلم:
شفیق معلم مایوس نہیں ہوتے جب سب لوگ کسی بچے کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر بھی دنیا میں دو آدمی ایسے ہیں جو اس بچے سے مایوس نہیں ہوتے۔
*"ایک اس کی ماں اور دوسرا شفیق معلم"*
آخر استاد طلبا کو کیا دیتا ہے۔ وہ سب اسباق جو اس نے پڑھایا وہ تو سب چند دن کے اندر اندر امتحان کے ساتھ ہی دل و دماغ سے غبار خاطر کی طرح اڑ جاتے ہیں صرف چند باتیں اور یاد رہ جاتی ہیں۔ اچھا استاد طلبإ میں غیر محصوص طریقہ سے رواداری, دوسروں کے ساتھ رہنے بسنے, اچھے شہری بننے اور چند بنیادی اقدار سے واقف کرا دیتا ہے جیسے حُسن و خوبی کی پرکھ, سچاٸ کی تلاش کا جذبہ اور نیکی پر عمل کرنے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔یہی وہ سب اجزاء ہیں جو شخصیت کا حصہ بن جائیں تو ہم اسے کلچر کہتے ہیں۔

اخلاص وکردار:
اچھا معلم اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔ اخلا ص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت پیدا ہوجاتی ہے۔ اپنے پیشے سے معلم جس قدر دلچسپی ہوگی اس کی راہ میں حائل رکاوٹ کم ہوتی چلی جائیں گی۔ایک اچھا معلم اپنے اندر اچھے اخلاق وکردار رکھتا ہے۔اس کے اندر جتنی بھی بری باتیں اور عادیتں ہیں ان سب سے جب تک پیچھا چھڑا نہیں لیتا اس میں اچھے اخلاق کا فقدان موجود ہی رہیگا۔

اچھی صحبت:
معلم کو چاٖہیے کہ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے تاکہ اُس کے پاس سے گزرنے والا طالب علم اس کے اخلاق کی خوبو سے معطر ہو۔ معلم کی شناخت اس کے صحبت کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ برے لوگوں سے خیر خواہی اور اصلاح کا تعلق تو رکھیں پر دوستی کا نہیں۔

کفایت شعار:اپنے انفرادی و اجتماعی کاموں میں کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔

فرض شناس:
ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﻮ,ﺍﮔﺮﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ علم کا ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﮔﯿﮟ؟معلم کو اپنے فرائض سرانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے.دینی اور دنیا وی مراحل کے ہر پہلو میں فرائض انجام دینے میں تو طلبإ کی مدد کرنی چاھیے۔
"ذمہ داری کچھ نہیں ہے احساس سے ذمہ داری سب کچھ ہے۔"
ایک کامیاب معلم کے لیے ضروری ھےکہ وہ ذمہ دار ہو کیونکہ طلبہ کی ذمہ داری کا اندازہ ذمہ دار معلم کی شناخت ہے۔معلم پر فرض ہے کہ وہ اسٹوڈینٹ کی تعلیم و تربیت کو اپنا اولین فرضیہ سمجھے۔

راز دار:
ایک معلم کو رازدار ہونا چاہیے۔بعذ دفعہ معلم کو اسٹوڈینٹ اپنی کوئی پرسنل بات بتا دیتا ہے تو معلم کو چاہیے اس کی بات کو راز میں رکھے۔پوری کلاس میں اس کے راز کو افشاں نہیں کرنا چاہیے۔اور خدا کی ذات ستارالعیوب ہے وہ ہمارے گناہوں کی ستر پوشی کرتی ہے۔
"بخدا پروردگار ہمارے گناہوں کی اس قدر پردہ پوشی کرتا ہے گویا ہمیں معاف کردیتا ہے۔"

انصاف پسند:
معلم کو انصاف پسند ہونا چاہیے۔اس میں (قوت فیصلہ) صیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے ہونی چاہیے۔ہر طالب علم پر انفرادی نظر رکھنی چاہیے اور ان کی ساتھ ساھ حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

ورزش:
معلم کو جسمانی اور روحانی صحت مند اور تندرست ہونا چاہیے۔اگر وہ ورزش نہیں کرے گا تو سہی طرح سے سوچ نہیں سکے گا۔ورزش کرنے سے جسمانی اور روحانی تندرستگی آتی ہے اور پرسینیلٹی ڈویلپ ہوتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان بوائے اسکاوٹس

Pakistan failed Kashmiris or UN?