ترکی کا شامی کُردوں پر حملہ عبرت ہے


ترکی کا شامی کُردوں پر حملہ عبرت ہے

جنگیں جیتنے کے لیے لڑی اور عبرت کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔ ہر دوسری جنگ کی طرح شام کی 8 سالہ جنگ میں بھی فتح و شکست کے علاوہ بہت ساری عبرتیں ہیں۔ جنگوں سے حاصل ہونے والی عبرتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ شام جنگ کی ایک عبرت جو شام کی تازہ صورتحال میں مزید تازہ ہوگئی ہے وہ شام جنگ میں کردوں کے کردار کے حوالے سے ہے۔

شامی کردوں نے اس وقت علیحدگی کا نعرہ لگایا جب شام کی فوج اور حکومت شامی عوام کو داعش کے درندوں سے بچانے میں مصروف تھی۔ کردوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور شام کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ شامی کردوں کا یہ اقدام شام کی مرکزی حکومت کی پیٹھ میں خنجر کے مترادف تھا۔ ایسے میں کردوں نے ہر اس علاقائی اور بین الاقوامی طاقت کے تلوے چاٹے جن سے انہیں اپنی غیر قانونی حکومت کی مضبوطی میں مدد کی ذرا بھی امید تھی۔

شام میں بشار الاسد حکومت کی مخالف طاقتوں خصوصاً امریکہ اور اسرائیل نے بھی اپنے اہداف کے پیش نظر کردوں کو خوب استعمال کیا، کردوں کو سبز باغ دکھائے گئے، کردوں کی حفاظت کی ضمانتیں دی گئیں۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد ترکی نے عفرین پر حملہ کر دیا۔ کرد ترک فوجوں کے محاصرے میں آگئے۔ روس نے کردوں کو پیشکش کی کہ اگر وہ اپنے زیر تسلط علاقے شام کی مرکزی حکومت کے حوالے کردیں تو شام کی سرکاری فوجیں اور اس کے اتحادی تمہیں نجات دلانے کے لیے عفرین آسکتے ہیں لیکن کردوں نے روسی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ عفرین کردوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور ترکی نے وہاں اپنے حمایت یافتہ گروہوں کو بٹھا دیا۔

16 فروری 2018 کو حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کردوں کو ایک نصیحت کی جس کی اہمیت کا احساس گزشتہ روز اس وقت ہوا جب خلیفۃ المسلمین رجب طیب اردگان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک بار پھر کردوں پر حملہ آور ہوا ہے۔

سید حسن نصراللہ نے کردوں کو کہا تھا:

"امریکہ تمہیں شام کی حکومت، ایران، روس اور مزاحمتی بلاک کے خلاف بطور جنگی ٹول استعمال کرے گا اور آخر میں اپنے مفادات کے پیش نظر تمہاری مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا اور تمہیں مفت میں بیچ دے گا"۔

سید حسن نصراللہ کی یہ پیشگوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ نے کردوں کی حفاظت کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، ترکی نے امریکہ کے گرین سگنل سے شام کے کردوں پر حملہ کر دیا ہے۔ چند کرد شہروں پر ترکی نے قبضہ کر لیا ہے، سینکڑوں کرد مارے گئے اور ہزاروں اگلے چند دنوں میں مارے جائیں گے یا ذلت آمیز شکست سے روبرو ہوں گے۔

یہ بات درست ہے کہ ترکی کا شامی کردوں پر حملہ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور اس وقت غیر ضروری ہے، یہ بات بھی درست ہے کہ یہ حملہ شامی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور شام کے امن پراسس کو بھی متاثر کرسکتا ہے اور شاید اسی وجہ سے شامی حکومت سمیت دنیا کی اکثر مہذب اور سنجیدہ حکومتوں نے ترکی کے شام پر تازہ حملے کی مذمت کی ہے لیکن جنگیں کسی نہ کسی صورت میں اپنی عبرتیں ظاہر کرتی رہتی ہیں ضرورت اس چشمِ بینا کی ہوتی ہے جو ان عبرتوں کو دیکھ سکے۔

ابنِ حسن

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان بوائے اسکاوٹس

Pakistan failed Kashmiris or UN?