ذرا نہیں پورا سوچئے

*ذرا نہیں پورا سوچئے*

*از قلم: علی زین*
بشکریہ سر علی رضوان ہمت

تمہارا مذہب کیا ہے ؟؟ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟؟ یہ ایک ایسا سوال ہے30جسے ہم میں سے تقریبا ہر شخص کو اپنی فیلڈ میں بلا تفریق رنگ و نسل ، علاقہ و زبان اکثر و بیشتر پیش آتا رہتا ہے  مگر اس سوال کے حوالے سے میرا تجربہ بالکل مختلف تھا کیونکہ مجھے یہ سوال  کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی والد گرامی کی طرف سے کیا گیا۔ ان کے اس سوال پہ پہلے تو میں ششدر رہ گیا مگر جب جواب دیا کہ وہی جس پہ آپ ہیں تو ان کے سوالات کی بوچھاڑ سے اندازہ ہوا کہ میں تو جہاں بھی ہوں مکمل گمراہ ہو سکتا ہوں کہ بلا دلیل ہوں  ، والد صاحب نے ایک مقررہ وقت دیا اور گھر میں موجود مختلف مکاتب فکر کی 300 سے زائد کتب کی طرف اشارہ کر کے کہا "بیٹا یہ کتب ہیں ان کے علاوہ جہاں کہیں سے بھی مدد لے سکو لو مگر مجھے مدلل جواب چاہیئے کہ تمہارا مذہب کیا ہے دلیل کے ساتھ الحاد بھی ثابت کرو گے تو مجھے قبول ہے وگرنہ کچھ بھی کہو میرے لئے قابل قبول نہیں" 
وقتی طور پہ ناگوار گزرنے والی یہ باتیں آج مجھے زندگی کا خوبصورت ترین تحفہ لگتی ہیں جو بابا جان نے مجھے دیا کہ اس کی بدولت میں اس حساس موضوع پہ بھی سوچنا شروع کیا اور نا صرف سوچا بلکہ ممکنہ حد تک مطالعہ کی توفیق بھی ملی۔۔۔۔

*مگر کیا معاشرے میں ہر فرد اس مذکورہ حالت سے گزرتا ہے؟؟؟*
آیا ہم میں سے ہر شخص جوانی کی دہلیز پہ جب قدم رکھتا ہے تو اسے گھر سے یہ تربیت ملتی ہے کہ دیگر علوم کے ساتھ جس راہ پہ چلنا ہے وہ رستہ بھی خود تلاش کرے یا کم از کم اس کی صداقت ۔۔۔ ؟؟؟ 
مگر افسوس کہ معاشرہ اس سوال کے جواب پہ مجرمانہ غفلت کا شکار دکھائی دیا ہے 
برادر علی رضوان کی وال سے بہت خوبصورت جملے پڑھنے کو ملے جن کو میں یہاں ان کی اجازت سے شامل کرنا چاہوں گا۔
ہمارے معاشرے کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر  
*کوئی اہل حدیث ھے*
فقط اس لئے کہ وہ کسی مجتہد کی گود میں پیدا ھوئے تھے
*کوئی بریلوی ھے*
فقط اس لئے کہ اس نے آنکھ کھولی تو گھر میں میلاد کی محفل تھی۔
 *کوئی دیوبندی ھے*
کیونکہ اس نے ایک ثقہ بند دیوبندی گھرانے میں جنم لیا

*کوئی شیعہ ھے*
کیونکہ اس نے آنکھ کھولی تو پنجتن پاک، شہدائے کربلا اور بارہ امام ھی سننے کو میسر آئے۔
یہاں تک تو بات ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے مگر
پھر ھوا یوں کہ ان میں سے ہر ایک درست راہ کا راہی ٹھہرا، باقی تین گمراہ یا کافر ھو گئے حور و غلمان کے کاپی رائٹس اس ایک کے نام، بہشت بریں کے سب رستوں سب گلیوں پہ اسی ایک کا قبضہ
*مگر یہاں کچھ سوچ و بچار کیلئے سوالات ہیں*
کہ اگر ایک شیعہ سُنی گھرانے میں پیدا کر دیا جاتا، تو کیا وہ سنی نہ ھوتا؟
سُنی اگر شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولتا تو کیا وہ شیعہ نہ ھوتا؟

*آخر کیوں؟*

کیونکہ اس کے عقیدوں کے ٹھیک ھونے کی دلیل اس کے سوا کوئی نہیں کہ اس  نے اپنے اجداد کو اس راہ پہ پایا اور فقط ان کی پیروی کے سوا حتی کسی کتاب تک کو ہاتھ نا لگایا
*محترم قارئین حضرات!!!*

ہم سب کا کوئی نا کوئی مذہب  و مسلک ضرور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ 

 کوئی مسلمان ہے تو کیوں ؟؟؟ 
شیعہ / سنی/ ہے تو کیوں ؟؟؟
 حتی کوئی مسیح ہے تو کیوں ؟؟؟
کوئی ہندو ہے تو کیوں ؟؟؟ 
کوئی کسی بھی مذہب و مسلک پہ کیوں ہے ؟؟؟ 

کیا آپکا کسی مسلک سے وابستہ ھونا ایک اتفاقی حادثہ تو نہیں ھے؟ 

*دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں! آپ کے شیعہ یا سُنی ھونے میں آپکے فہم و ادراک کا کتنا دخل ھے؟*

سوچیئے، آپ اگر اجداد سے ملنے والے عقیدے پہ مطمئن ھیں، تو آپ کا حریف کیوں نہ ھو؟
اجداد تو اسے بھی عزیز ھیں نا جناب؟
دوسری بات: اجداد سے ملنے والے عقیدے پہ چلنا اگر حریف کا جرم ٹھہرا ہے تو کسی عقیدے سے آپ کی وابستگی میں آپ کا کیا کمال ھوا؟
تو پھر بتلائیں، خود کے جنتی ھونے کا یہ یقین کیسا؟ دوسروں کے جہنمی ھونے پہ اصرار کیسا؟ 
سچ یہ ھے کہ کلی طور پہ ہمارا معاشرہ  اُس خدا کی پوجا کر رھا ھے جو اسے اپنے اجداد سے ملا ھے۔ کبھی اجداد کے گنبد سے دو قدم باھر نکل کر, عقل و دانش کی منطق تو کھنگالنے کی ہمت کرو 
مسلمانان عالم !!!  ذرا قرآن کریم اور عقل کی روشنی میں اپنا رب ضرور تلاش کیجئے، جس نے آپ کا نام *مُسلم و مومن* پسند کیا۔

خدارا آخر میں بس یہی التماس ہے کہ  آپ اختلاف رکھیں ضرور رکھیں، مگر کسی کو برا بھلا کہنا کہاں کا اختلاف ہے؟؟؟؟
ایک دوسرے کو لعنتی، جہنمی کہہ کے اس کی تکفیر کر کے واجب القتل قرار کہنا کیسا اختلاف ہے؟
کیا ایسے کریں گے آپ معاشرے کی تعمیر ؟؟؟؟
ایک دوسرے کو گالیاں دینا کون سا دین ہے؟
اگر آپ سارے کلمہ گو ایک دوسرے کو جہنمی اور گمراہ کہیں گے تو بتاٸیں پروردگار عالم نے اتنی وسیع و عریض ، خوبصورت و دلنشین اتنی بہشت بریں  کس لیۓ بناٸ؟ 
ذرا تاریخ کے پرت سے گرد ہٹا کے نگاہ کریں نبی آخر مُحَمَّد  مصطفیﷺ نے تو کبھی کافر و مشرک درکنار توہین کرنے والے کو بھی گالی نہیں دی، دین تو صلح رحمی کا درس دیتا ہے۔ اور دین اسلام کے علاوہ تمام ادیان کا درس بھی وحدت، حرمت و صلح رحمی ہی ہے جسے ایک نقطے میں درس انسانیت کہا جا سکتا ہے۔
خدارا اپنے دماغوں میں لگے اناپرستی کے تالوں کو کھولیں اور بھاٸ چارے والی معاشرتی زندگی کیطرف رجوع فرماٸیں۔ معاشرہ سازی انسان سازی سے مربوط ہے اور انسان سازی کبھی بھی تکفیر کرنے سے نہیں ہوتی اس کے لئے ضروری ہے کہ موقع دیں ہر ایک کو اپنی جگہ خود کو درست سمجھنے کا اور اپنے مطابق عمل کرنے کا مگر ساتھ ہی نا فقط خود بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اتنی جگہ دیں کہ وہ سوچنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا سکے۔

Alisc1214@gmail.com 
00923024409604

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان بوائے اسکاوٹس

Pakistan failed Kashmiris or UN?