فضا سوگوار اور آغاز محرم

فضا_سوگوار_اور_آغاز_محرم

از قلم : علی زین مہدی

ہمارا کسی بھی شے سے جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے اس پہ بیتنے والی شیریں و تلخ رودادیں اسی قدر شدید اثر رکھتی ہیں۔ ہمارے محلے میں کوئی کڑیل جوان وفات پا جائے تو بس یہی جملہ منہ سے نکلتا ہے کہ *افسوس ہوا* مگر خدا نخواستہ گھر میں کوئی ایسا سانحہ ہو جائے تو وجود کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے وجہ فقط وابستگی ہے۔ خونی وابستگی سے بھی مہم تر ہوتی ہے دلی و روحانی وابستگی اگر کسی ایسے شخص کے ساتھ کوئی سانحہ ہو جائے کہ جس سے ہماری دلی یا عقیدتیوابستگی ہو تو یقین مانیں ہر سانس لینا بھی جوئےشیر کے متردف محسوس ہوتی ہے۔ کچھ یہی حال ایام محرم کی ابتدا پہ بھی ہے *کوئی نئے اسلامی سال کی مبارک باد دیتا ہے تو کوئی گھر میں فرش عزا بچھا کے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کو پرسہ دینے کا اہتمام بجا لاتا ہے*
آغاز ایام محرم ہے اس پہ ہر ذی روح کا مختلف احوال ہوتا ہے کچھ کیلئے باقی مہینوں کی طرح عام دن مگر کچھ کا حال بے حد کرب ناک ہوتا ہے۔
کسی اور کی بابت کچھ بھی قلم کاری کرنا ممکن نہیں مگر خود پہ ایک دو دن سے اک عجب سی کیفیت طاری ہے خود پہ اک ہیجانی اور پریشان حالت، *دل* ایسے پریشان و افسردہ کہ گویا زیست کو خیر آباد کہہ رہا ہو۔ *بدن* ،مانو جیسے قفس ظلمت کا مکین ہو اور ظلمت کدہ سے نکلنے کے لیے تڑپ رہا ہو مگر بے سود، *روح* ،مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہی ،گردونواح میں کچھ بھی تو اچھا نہیں لگ رہا کوئی کھلکھلاے بھی تو لاشعور میں وہ تیروں کی مانند پیوستہ ہوتا ہیے، *پوراوجود* سیاہ رات کے سناٹے میں اپنے بچے کی تلاش میں بھٹکتی ممتا  کی طرح آہ وبکا کر رہا.
 المختصر ایسے محسوس ہو رہا گویا نظام فطرت بدل گیا ہو پوری کی پوری دنیا سوگوار ہو اور کوئی پرسان حال نہیں،
سوالات کی بوچھاڑ تھی کہ ایسی حالت کیوں ہے آخر کیوں اس دل بے قرار کو قرار نہیں اس روح ناشاد کو اطمینان نہیں کیوں ہر جا تپش ہے مگر سائبان نہیں کیا کوئی طوفاں منتظر ہے ہمارا یا ہم کسی بحر بے کراں کی بے رحم دل خراش موجوں سے ہمارا سفینہ ٹکرانے لگا ہے۔ بہت سوچا بہت پرکھا سوچوں کے گہرے سمندر میں غوطہ لگایا کہ شاید کوئی نگینہ گل ہاتھ آجائے اور اس مرض کا مداوا ہو سکے مگر سوچوں کی گہرائی اور  پرواز کی بے بہا بلندی کے باوجود اپنی منزل کو نا پا سکا کہ اچانک کسی کونے سے، کانوں سے اک آواز ٹکرائی، اس آواز میں وہ درد تھا کہ پلکوں کے تمام بند توڑ کے اک بحر بے کراں ہجر یوسف میں نین یعقوب ع سے نکلتے ساون کی طرح آنکھوں  سے سیلاب کی مانند رواں  ہونے لگا دل و روح اور اس زیست کی بدلتی طبعیت ذہن کے دریچوں کو چیرتے ہوے بتلانے لگی کہ ان سب کا اک جبلی تعلق ہے وہ جو عالم ارواح میں طے ہوا تھا وہ تعلق کہ جو پاک و طاہر سلبوں کے بدولت ہم تک منتقل ہوا وہی تعلق جو تمام تر تعلقات سے معتبر ہے۔
وہ آواز کیا تھی وہ آواز تھی اک نوحے کی " *آغاز ہو رہا ہے کربل کی کہانی کا*'' 
یہ آواز میرے ان تمام سوالوں کا جواب تھی جو میرے بدن کا انگ انگ مجھ سے کر رہا تھا ،
ہاں! یہ فضا سوگوار ہے یہ بدن یہ روح یہ ساری کائنات سوگوار ہے کیوں کہ کربلا کے قریب ہے وہ کہ جو کائنات کا سب سے بڑا مظلوم ہے اس کے ساتھ 6 ماہ کے ننھے سفیرِعشق سے لیکر 90 سال کے ضعیف جرات مند با وفا ہمراہی ہیں لیکن اس قافلہ عشق میں مخدرات عصمت و طہارت بھی ہیں کہ جنہوں نے کبھی نانا جان کا روضہ بھی اس حالت میں نہیں دیکھا کہ نا محرم کی ان پہ نگاہ پڑے ،ہاۓ یہ امت کی ستم ظریفی کہ انہی عصمت و طہارت کی معیار مخدرات کو کوچہ بہ کوچہ پھرایا  اور ان اعلی حسب , اعلی نسب اور اعلی کردار وجہ تخلیق کائنات ہستیوں پہ تاریخ کے وہ برترین مظالم رواں رکھے کہ جن پہ آج بھی قرطاس تاریخ شرمسار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عنوان سمندر یے اور الفاظ درختوں کے پتے! جتنا لکھیں اتنا کم ہے لیکن یہ ہر اس شخص کے لیے باعث شرم ہو گا اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انسان ناخلف و نا مراد ہے کہ جو اس قلبی حالت کو تو پا لے مگر اپنے ان محسنوں کو بھول جاۓ جنہوں نے گودی سے ہی *#عشق_حسین ع* رگوں میں ڈال دیا ۔ تو اس دل بے قرار و بے چین کی ترجمانی ان الفاظ سے کرنا چاہوں گا کہ...
اے ماں تیرا شکریہ کہ تیری بدولت میرا دل قبر حسین ع ہے اور ماہ محرم میرے لیے دوسروں کی نسبت مختلف ہے کیوں کہ  میرا بابا نے جو لقمہ حلال میرے لیے فراہم کیا تو نے عشق حسین کی چاشنی اور اپنی عصمت کی پاکیزگی کے  ساتھ میری روح کو عنایت کیا۔ او اسکا نتیجہ آج  یہ ہے کہ عشق حسین ع میرے پورے وجود کے انگ انگ میں موجزن ہے . تیری گود میں اور بابا کی انگلی تھامے عزا خانہ شبیر ع میں وہ جو ناد علی ع اور زکر علی سن سن کہ میں پروان چڑھا 
آج وہ زکر میرے خون کی ایک ایک بوند میں یوں سمویا ہوا ہے کہ گویا عشق علی ع کے سمندر میں غوطہ زن اور غم حسین ع کی حرارت میں محو پرواز ہوں میرا تمام تر وجود اس قدر محو ہے اس عشق فرزند رسول خدا  محمد ص و آل محمد ع میں کہ میری تمام تر بڑی خصلتوں کے باوجود میرا دل اور روح نام حسین ع پہ اشک بار ہے میں نے اپنے وجود کو مجبور مقہورکیا سیاہ کاریوں کی بدولت مگر تیری عفت و پاکدامنی نے مجھے مولا حسین ع کا عاشق بنائے رکھا  کہ بخدا اس کائنات میں ان سے بڑھ کے کوئی عزیز ہو ہی نہی  سکتا۔
عزیزان ایک مرتبہ تدبر فرمائیے گا اگر 10 محرم کو آپ ذکر حسین ع کی بجائے اپنے مرحومین کی قبور پہ جائیں تو کہ حسین ع سے کچھ تعلق ہے بھی یا نہیں؟؟؟

Alisc1214@gmail.com 
00923024409604

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان بوائے اسکاوٹس

Pakistan failed Kashmiris or UN?